مجازی سلسلے کو یہ کبھی مٹنے نہیں دیتی.
جو عدت سے نہیں واقف محبت ایسی بیوہ ہے.
چھانٹی کے چار لوگ ہیں جن سے کلام ہے
باقی حسد زدوں کو نمستے ، سلام ہے
جا بزدلا ! ہمیں نہ دکھا دوستوں کے زخم
ہم وہ فقیر ہیں جنہیں غیبت حرام ہے
آنسو بھی ایک دشت کی بیعت کو آئے ہیں
وہ دشت جس کے صبر کا دریا غلام ہے
القصّہ مختصر کہ مجھےنیند آگئی
مزدور کا وصال ابھی ناتمام ہے
اچھے نسب کے دشمنوں کی خیر مانگیے
کانٹے نہ ہوں تو پھول کا بھی کیا مقام ہے
اب میں خدا سے تیری شکایت لگاؤں گا
اور یہ غریب آدمی کا انتقام ہے
مٹی جَنے چراغ ، حسد میں ہی جل مرے
سورج کو آج رات بھی جگنو سے کام ہے
chanti ky char log hain jin sy kalam hai
baki hasad zadon ko namastay salam hai
0 Comments